ملے غیروں سے، مجھ سے رنج، (سائل دہلوی)

ملے غیروں سے، مجھ سے رنج، غم یوں بھی ہے اور یوں بھی

وفا دشمن، جفا جو کا ستم یوں بھی ہے اور یوں بھی

تم آؤ مرگِ شادی ہے ، نہ آؤ مرگِ ناکامی

نظر میں اب رہِ ملکِ عدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

مجھے باور ہے تم جھوٹے نہیں ، وعدے کے سچے ہو

قسم کیوں کھاؤ ، ناجائز قسم یوں بھی ہے اور یوں بھی

نہ خود آئیں نہ بلوائیں شکایت کیوں نہ لکھ بھیجوں

عنایت کی نظر مجھ پر تو کم یوں بھی ہے اور یوں بھی

تجھے نواب بھی کہتے ہیں ، شاعر نھی سمجھتے ہیں

زمانے میں تِرا سائل بھرم یوں بھی ہے اور یوں بھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *