وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں (سائل دہلوی)

وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں

حریفِ قمری و پروانہ و ہزار ہوں میں

جدا جدا نظر آتی ہے جلوہ کی تاثیر

قرار ہو گیا موسیٰ کو بے قرار ہوں میں

شباب کر دیا میرا تباہ الفت نے

خزاں کے ہاتھ کی بوئی ہوئی بہار ہوں میں

سما گیا ہے یہ سودا عجیب سر میں مِرے

کرم کا اہلِ ستم سے امیدوار ہوں میں

امیر کرتے ہیں عزت مِری ہوں وہ سائل

گلوں کے پہلو میں رہتا ہوں ایسا خار ہوں میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *