Monthly archives: April, 2020

ہنسی ، دل لگی ، مہ جبیں ہو چکی (سائل دہلوی)

ہنسی ، دل لگی ، مہ جبیں ہو چکی نہیں اب نہ کہنا ، نہیں ہو چکی سنا ہے تِرے خیر مقدم کی عید کہیں آج ہے کہیں کل ہو چکی ہوئی عشق کی بات ازل ہی میں طے وہیں ہونے والی وہیں ہو چکی مکرر گزارش پہ بولا وہ شوخ نہیں کہہ دیا بس …

نہیں ہے تابِ ضبطِ غم کسی عاشق کے امکاں میں (سائل دہلوی)

نہیں ہے تابِ ضبطِ غم کسی عاشق کے امکاں میں دلِ خوں گشتہ یا دامن میں ہو گا یا گریباں میں ہمیشہ پے کے مے جام و صراحی توڑ دیتا ہوں نہ میرا دل ترستا ہے نہ فرق آتا ہے ایماں میں مزہ کیوں کاوشِ زخمِ جگر کا آج کم کم ہے نمک کی کوئی …

ملے غیروں سے، مجھ سے رنج، (سائل دہلوی)

ملے غیروں سے، مجھ سے رنج، غم یوں بھی ہے اور یوں بھی وفا دشمن، جفا جو کا ستم یوں بھی ہے اور یوں بھی تم آؤ مرگِ شادی ہے ، نہ آؤ مرگِ ناکامی نظر میں اب رہِ ملکِ عدم یوں بھی ہے اور یوں بھی مجھے باور ہے تم جھوٹے نہیں ، وعدے …

حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا (سائل دہلوی)

حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا کوئی روئے تمہارے سامنے تو مسکرا دینا تردد برق ریزوں میں تمہیں کرنے کی کیا حاجت تہمیں کافی ہے ہنسنا، دیکھ لینا، مسکرا دینا تکلف برطرف کیوں پھول لے کر آؤ تربت پر مگر جب فاتحہ کو ہاتھ اٹھانا مسکرا دینا ہوئی بجلی سے کس …

امانت محتسب کے گھر شرابِ ارغواں رکھ دی (سائل دہلوی)

امانت محتسب کے گھر شرابِ ارغواں رکھ دی  تو یہ سمجھو کہ بنیادِ خراباتِ مغاں رکھ دی یہاں تک تو نبھایا میں نے ترکِ مے پرستی کو کہ پینے کو اٹھالی اور لیں انگڑائیاں ، رکھ دی جنابِ شیخ مے خانے میں بیٹھے ہیں برہنہ سر اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں …

اس کو کہتے ہیں قناعت قول یہ سائل کا ہے (سائل دہلوی)

اس کو کہتے ہیں قناعت قول یہ سائل کا ہے گوہرِ شہوار تبخالہ لبِ ساحل کا ہے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ گویا تیر مارا آپ نے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ جذبہ ہمارے دل کا ہے  دوستوں کی اشک شوئی سے مجھے کیا فائدہ ان کو آنکھوں کی پڑی ہے مجھ کو رونا …

فصلِ گل اب آ گئی وحشت کا ساماں دیکھیے (سائل دہلوی)

فصلِ گل اب آ گئی وحشت کا ساماں دیکھیے سنگِ طفلاں دیکھیے خارِ مغیلاں دیکھیے  دعوئی آہن گدازی گر مِرا باور نہیں تیر کچھ دل میں چبھو کر اُن کے پیکاں دیکھیے کیوں کسی سے پوچھیے خستہ سری کا ماجرا قُفل کھُلوا کردر ودیوارِ زنداں دیکھیے جانیے آسیبِ ہستی سے اُسی کو مطمئن ذرہ ذرہ …

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا (فراق گورکھ پوری)

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا حجاب اہلِ محبت کو آئے ہیں کیا کیا جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی چراغِ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا دو چار برقِ تجلی سے رہنے والوں نے فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا بقدرِ ذوقِ نظر دیدِ حسن کیا …

کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں (فراق گورکھ پوری)

کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں فراق دوڑ گئی روح سی زمانے میں کہاں کا درد بھرا تھا فسانے میں وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے وہ کوئی حسن ہے ججھکے جو رنگ لانے میں کبھی بیان دل خوں شدہ سے یہ …

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں (فراق گورکھ پوری)

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور یہ بھی سچ  کہ  ہے تِرا حسن کچھ ایسا بھی نہیں دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں لیکن اس جلوہ گہِ ناز سے اٹھتا …