آ گئی پیری جوانی ختم ہے
صبح ہوتی ہے کہانی ختم ہے
حسرتوں کا دل سے قبضہ اٹھ گیا
غاصبوں کی حکمرانی ختم ہے
ہو گیا ذوقِ نظارہ خود فنا
یا بہارِ بوستانی ختم ہے
وقتِ بینش کیفِ خود بینی کہاں
پیاس ہے موجود پانی ختم ہے
بجھ گیا دل ہو گئی گونگی زباں
اگلی پچھلی ہر کہانی ختم ہے
آرزو تھا اک اندھیرے کا چراغ
اس کی بھی اب ضو فشانی ختم ہے