Category «آرزو لکھنوی»

وہ آنکھ اٹھا کے ذرا بھی جدھر کو دیکھتے ہیں (آرزو لکھنوی)

وہ آنکھ اٹھا کے ذرا بھی جدھر کو دیکھتے ہیں تو کیا ہی یاس سے ہم اُس نظر کو دیکھتے ہیں جو یہ حال ہے تو جائیں گے وہاں ہم آپ اک آدھ روز تو دردِ جگر کو دیکھتے ہیں یہ کہتے ہو اگر آنا ہوا تو آئیں گے ہم بھلا ہم آج تمہاری اگر …

پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی (آرزو لکھنوی)

پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی آنسو میں کوندتی ہوئی بجلی چھلک گئی کب تک یہ جھوٹی آس کہ اب آئے وہ اب آئے پلکیں جھکیں ، پپوٹے تنے ، آنکھ تھک گئی ندی میں آنسوؤں نے بہا دی تو کیا ہوا کھولن جو تھی لہو میں نہ وہ آج تک گئی دونوں …

رونے پہ مِرے ہنستے کیا ہو بے سمجھے نہ دیوانہ جانو (آرزو لکھنوی)

رونے پہ مِرے ہنستے کیا ہو بے سمجھے نہ دیوانہ جانو دل کس سے لگایا ہے تم نے ، تم درد کسی کا کیا جانو رونے پہ کسی کے کوئی ہنسے ، ہنسنے پہ کسی کے روئے کوئی جو بات ہے جس کی وہ جانے ہم کیا سمجھیں تم کیا جانو کہنے سے نہ کہنا …

بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو (آرزو لکھنوی)

بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو رسمیں اس اندھیر نگری کی نئی نہیں پرانی ہیں مہر پہ ڈالو رات کا پردہ ماہ کو روشن رہنے دو روح نکل کر باغِ جہاں سے باغِ جناں میں جا پہنچے چہرے …

دل جن کا گیا ہے رنج انہیں ، جو پاگئے خوش ہوتے ہیں (آرزو لکھنوی)

دل جن کا گیا ہے رنج انہیں ، جو پاگئے خوش ہوتے ہیں یہ اپنی اپنی قسمت ہے وہ ہنستے ہیں ہم روتے ہیں ہو چاہے کسی کی بربادی چھوٹے گی نہ آرائش ان کی لڑیاں ہیں یہاں اشکوں کی بندھی بالوں میں وہ موتی پروتے ہیں اُلفت میں سلیقہ جو جس کا انجام بگڑنا …

آ گئی پیری جوانی ختم ہے (آرزو لکھنوی)

آ گئی پیری جوانی ختم ہے صبح ہوتی ہے کہانی ختم ہے حسرتوں کا دل سے قبضہ اٹھ گیا غاصبوں کی حکمرانی ختم ہے ہو گیا ذوقِ نظارہ خود فنا یا بہارِ بوستانی ختم ہے وقتِ بینش کیفِ خود بینی کہاں پیاس ہے موجود پانی ختم ہے بجھ گیا دل ہو گئی گونگی زباں اگلی …

یہ جو دو اک بہار کے دن ہیں (آرزو لکھنوی)

یہ جو دو اک بہار کے دن ہیں زندگی میں شمار کے دن ہیں ظلم ہے عمر میں شمار ان کا ایسے کچھ انتظار کے دن ہیں جوشِ گل میں بھی خار کی ہے خلش اک مصیبت بہار کے دن ہیں ہے معین نفس کی آمد و شد عمر کتنی ، شمار کے دن ہیں …

وہ سرِ بام کب نہیں آتا (آرزو لکھنوی)

وہ سرِ بام کب نہیں آتا جب میں ہوتا ہوں تب نہیں آتا زہر نعمت ، نہ موت لائقِ شوق کیا کریں چین جب نہیں آتا بھولی ہوئی باتوں پہ تیری دل کو یقین پہلے آتا تھا اب نہیں آتا اُن کے آگے بھی دل کو چین نہیں بے ادب کو ادب نہیں آتا آرزو …

دُکھ روگ کو چاہت کے سکھ روگ بنانا ہے (آرزو لکھنوی)

دُکھ روگ کو چاہت کے سکھ روگ بنانا ہے دہکا ہوا انگارہ ، چھاتی سے لگانا ہے کیوں مرتے ہیں ہم تم پر اس کیوں کو نہ کچھ پوچھو پانی نہیں پینا ہے اور پیاس بجھانا ہے جو آپ سے گزرا ہے پہنچا ہے وہی مجھ تک جو آپ کو بھولا ہے اس نے تجھے …