وصل جب ہوتا ہے ان کا میں یہاں ہوتا نہیں (بیخود دہلوی)

وصل جب ہوتا ہے ان کا میں یہاں ہوتا نہیں

یہ زمیں ہوتی نہیں یہ آسماں ہوتا نہیں

فصلِ گل میں تنکے چننے کا نہیں سودا مجھے

کیا گزارا باغ میں بے آشیاں ہوتا نہیں

برق کا گرنا سنا ، صیاد کا کہنا سنو

چار تنکوں کا اجڑنا داستاں ہوتا نہیں

کچھ نرالی وضع کا معشوق ہے وہ شوخ بھی

مہرباں ہوتا نہیں ، نا مہرباں ہوتا نہیں

جسجتو ہے شرط عاشق بن کے ڈھونڈے بھی کوئی

وہ کہاں ملتا نہیں وہ کہاں ہوتا نہیں

ایک ادنیٰ سا کرشمہ ہے یہ اس کے عشق کا

مر گیا ہوں مرنے کا گماں ہوتا نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *