پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی
آنسو میں کوندتی ہوئی بجلی چھلک گئی
کب تک یہ جھوٹی آس کہ اب آئے وہ اب آئے
پلکیں جھکیں ، پپوٹے تنے ، آنکھ تھک گئی
ندی میں آنسوؤں نے بہا دی تو کیا ہوا
کھولن جو تھی لہو میں نہ وہ آج تک گئی
دونوں کو ایک کرتی ہے بڑھ کر لگی کی آگ
اُٹھی یہاں سے آنچ وہاں تک لپک گئی
جس نے اڑا دی راتوں کی نیند اور دن کا چین
جی سے نہ پھر بھی آرزو اُس کی للک گئی