بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو (آرزو لکھنوی)

بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو

جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو

رسمیں اس اندھیر نگری کی نئی نہیں پرانی ہیں

مہر پہ ڈالو رات کا پردہ ماہ کو روشن رہنے دو

روح نکل کر باغِ جہاں سے باغِ جناں میں جا پہنچے

چہرے پہ اپنے میری نگاہیں اتنی دیر تو رہنے دو

خندۃ گل بلبل میں ہو گا ، گل میں نغمہ بلبل کا

قصہ ایک زبانیں دو ہیں آپ کہو یا کہنے دو

اپنا جنونِ شوق دبا کیوں خوف جو تھا رسوائی کا

بات کرو خود قابلِ شکوہ اُلٹے مجھ کو اُہلھنے دو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *