دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں (سیماب اکبر آبادی)

دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں

اک آئنہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

آزردہ اس قدر ہوں سرابِ خیال سے

جی چاہتا ہے تم بھی نہ آؤ خیال میں

تنگ آ کے توڑتا ہوں طلسمِ خیال کو

یا مطمئن کرو کہ تمہی ہو خیال میں

دنیا ہے خواب ، حاصلِ دنیا خیال ہے

انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

عمرِ دو روزہ واقعی خواب و خیال تھی

کچھ خواب میں گذر گئی ، باقی خیال میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *