Category «سیماب اکبر آبادی»

یہ کس ادا سے کرشمے دکھائے جاتے ہیں (سیماب اکبر آبادی)

یہ کس ادا سے کرشمے دکھائے جاتے ہیں ادا شناس بھی دھوکے میں آئے جاتے ہیں جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں بنا کے دل مری مٹی سے لائے جاتے ہیں انہیں ستم کے سلیقے سکھائے جاتے ہیں جنہیں سپرد ہے گلگشتِ حسن کی …

رہ و رسم آشنا ہوں ، سعی میری رائیگاں کیوں ہو (سیماب اکبر آبادی)

رہ و رسم آشنا ہوں ، سعی میری رائیگاں کیوں ہو جو منزل سے بھٹک جائے وہ میرا کارواں کیوں ہوں مِلو تو ہر جگہ ، یعنی تعین کی حدیں توڑو نہیں ہے جب مکاں کی قید ، قیدِ لا مکاں کیوں ہو جبیں ہم جس جگہ رکھ دیں گے اک کعبہ بنا لیں گے …

چمک جگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے (سیماب اکبر آبادی)

چمک جگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے کہانی میری رُودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے جو سنتا ہے اُسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے ہوائے شوق کی قوت وہاں لے آئی ہے مجھ کو جہاں منزل بھی گردِ کارواں معلوم ہوتی ہے ترقی پر ہے …

طولِ رہِ حیات سے گھبرا رہا ہُوں میں (سیماب اکبر آبادی)

طولِ رہِ حیات سے گھبرا رہا ہُوں میں گھبرا رہا ہوں اور چلا جا رہا ہوں میں چھوتی نہیں ہے مجھے پرِ جبریل کی ہوا یہ کن بلندیوں پہ اڑا جا رہا ہوں میں پھر دے رہا ہوں فطرتِ انساں کو درسِ ناز سر آستانِ حسن سے اٹھوارہا ہوں میں کیوں میرے ترکِ بادہ پہ …

جتنے ستم کیے تھے کسی نے عتاب میں (سیماب اکبر آبادی)

جتنے ستم کیے تھے کسی نے عتاب میں وہ بھی ملا لیے کرمِ بے حساب میں حسرت کو گھر کہیں نہ ملا اضطراب میں لُٹنے کو آگئی دلِ خانہ خراب میں اُٹھا ہے ابرِ مے کدہ دستِ دعا کے ساتھ اتنی برس پڑی کہ نہالوں شراب میں آ اے گلِ فسردہ ! لگا لوں تجھے …

دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں (سیماب اکبر آبادی)

دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں اک آئنہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں آزردہ اس قدر ہوں سرابِ خیال سے جی چاہتا ہے تم بھی نہ آؤ خیال میں تنگ آ کے توڑتا ہوں طلسمِ خیال کو یا مطمئن کرو کہ تمہی ہو خیال میں دنیا ہے خواب ، حاصلِ دنیا خیال …

ضبط سے نا آشنا ہم ، صبر سے بیگانہ ہم (سیماب اکبر آبادی)

ضبط سے نا آشنا ہم ، صبر سے بیگانہ ہم انجمن میں ہیں شریکِ قسمتِ پروانہ ہم خود ہی سازِ بے خودی کو چھیڑ دیتے ہیں کبھی خود ہی سنتے ہیں حدیثِ ساغر و پیمانہ ہم دفعتاً سازِ دو عالم بے صدا ہو جائے گا کہتے کہتے رُک گئے جس دن تِرا افسانہ ہم وحدت …

نامہ گیا کوئی ، نہ کوئی نامہ بر گیا (سیماب اکبر آبادی)

نامہ گیا کوئی ، نہ کوئی نامہ بر گیا تیری خبر نہ آئی زمانہ گزر گیا جنت بھی خوب بھر گئی ، دوزخ بھی بھر گیا جوشِ جنوں بتائے مجھے میں کدھر گیا ہنستا ہوں یوں کہ ہجر کی راتیں گزر گئیں روتا ہوں یوں کہ لطفِ دعائے سحر گیا اب مجھ کو ہے قرار …

نسیمِ صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہوگی (سیماب اکبر آبادی)

نسیمِ صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہوگی کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہو گی تمہیں دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہو گی مزہ آ جائے گا محشر میں کچھ سننے سنانے کا زباں ہو گی ہماری اور کہانی آپ …

سبو پر جام پر شیشے پہ پیمانے پہ کیا گزری (سیماب اکبر آبادی)

سبو پر جام پر شیشے پہ پیمانے پہ کیا گزری نہ جانے میں نے توبہ کی تو مے خانے پہ کیا گزری ملیں تو فائزانِ منزلِ مقصود سے پوچھوں گزرگاہِ محبت سے گزر جانے پہ کیا گزری کسی کو میرے کاشانے سے ہمدردی نہیں شاید ہر اک یہ پوچھتا ہے میرے کاشانے پہ کیا گزری …