سبو پر جام پر شیشے پہ پیمانے پہ کیا گزری (سیماب اکبر آبادی)

سبو پر جام پر شیشے پہ پیمانے پہ کیا گزری

نہ جانے میں نے توبہ کی تو مے خانے پہ کیا گزری

ملیں تو فائزانِ منزلِ مقصود سے پوچھوں

گزرگاہِ محبت سے گزر جانے پہ کیا گزری

کسی کو میرے کاشانے سے ہمدردی نہیں شاید

ہر اک یہ پوچھتا ہے میرے کاشانے پہ کیا گزری

تِری ہر سو تجلی اور میری ہر طرف نظریں

تجھے تو یاد ہو گا آئنہ خانے پہ کیا گزری

وہ کہتا تھا خدا جانے بہار آئے تو کیا گزرے

خدا جانے بہار آئی تو دیوانے پہ کیا گزری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *