طولِ رہِ حیات سے گھبرا رہا ہُوں میں (سیماب اکبر آبادی)

طولِ رہِ حیات سے گھبرا رہا ہُوں میں

گھبرا رہا ہوں اور چلا جا رہا ہوں میں

چھوتی نہیں ہے مجھے پرِ جبریل کی ہوا

یہ کن بلندیوں پہ اڑا جا رہا ہوں میں

پھر دے رہا ہوں فطرتِ انساں کو درسِ ناز

سر آستانِ حسن سے اٹھوارہا ہوں میں

کیوں میرے ترکِ بادہ پہ تجھ کو یقیں نہیں

ساقی تِرے لبوں کی قسم کھا رہا ہوں میں

تحلیل ہو رہا ہے مِرا نور ہر نفس

تعمیرِ کائنات میں کام ارہا ہوں میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *