جو غم شناس ہو ایسی نظر تجھے بھی دے
یہ آسماں غمِ دیوار و در تجھے بھی دے
سخنِ گلاب کو کانٹوں میں تولنے والے
خدا سلیقئہ عرضِ ہنر تجھے بھی دے
خراشیں روز چنے اور دل گرفتہ نہ ہو
یہ ظرفِ آئنہ ، آئنہ گر تجھے بھی دے
ہے وقت سب سے بڑا منتقم یہ دھیان میں رکھ
نہ سہہ سکے گا یہی غم اگر تجھے بھی دے