غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا (محسن بھوپالی)

غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا

وہ شخص لہجہ بڑا دلنشین رکھتا تھا

ہے تار تار مرے اعتماد کا دامن

کسے بتاؤں کہ میں بھی امین رکھتا تھا

اتر گیا ہے رگوں میں مری لہو بن کر

وہ زہر ذائقہ انگبین رکھتا تھا

گزرنے والے نہ یوں سرسری گزر دل سے

مکاں شکستہ سہی، پر مکین رکھتا تھا

وہ عقلِ کل تھا بھلا کس کی مانتا محسن

خیالِ خام پہ پختہ یقین رکھتا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *