وہ جو دعویدار ہے شہر میں کہ سبھی کا نبض شناس ہوں
کبھی آکے مجھ سے تو پوچھتا کہ میں کس کے غم میں اداس ہوں
یہ مری کتابِ حیات ہے اسے دل کی آنکھ سے پڑھ ذرا
میں ورق ورق ترے سامنے ترے روبرو ترے پاس ہوں
یہ تری امید کو کیا ہوا کبھی تو نے غور نہیں کیا
کسی شام نے کہا تو تھا تری سانس ہوں تری آس ہوں
یہ جو شہرِ فن میں قیام ہے سو ترے طفیل ہی نام ہے
مرے شعر کیوں نہ گداز ہوں کہ ترے لبوں کی مٹھاس ہوں
یہ تری جدائی کا غم نہیں کہ یہ سلسلے تو ہیں روز کے
تری ذات اس کا سبب نہیں کئی دن سے یونہی اداس ہوں
کسی اور کی آنکھ سے دیکھ کر مجھے ایسے ویسے لقب نہ دے
ترا اعتبار ہوں جانِ من نہ گمان ہوں نہ قیاس ہوں