بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا (امجد اسلام امجد)

بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا

سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا

سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھِلنے لگے

کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا

بات تو کچھ بھی نہیں تھی لیکن اس کا اِک دم

ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا

چائے میں چینی ملانا اس گھڑی بھایا بہت

زیرِ لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا

دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھولنے کے اسے

وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا

بے ارادہ لمس کی وہ سَنسنِی پیاری لگی

کم توجہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچھا لگا

نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل

تیری یادوں کے جلاؤ میں گھومنا اچھا لگا

اس عدوئے جاں کو امجد میں برا کیسے کہوں

جب بھی آیا سامنے وہ بے وفا اچھا لگا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *