ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی (محسن نقوی)

ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا

راستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی

اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو

مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی

مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گُھل مِل گیا وہ شخص

ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی

سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں

شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید

سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی

محسن میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حالِ دل

درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *