وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے
کہ جس طرح کوئی لہجہ بدلتا جاتا ہے
یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلتے
مگر وہ شخص تو راستہ بدلتا جاتا ہے
رُتیں وصال کی اب خواب ہونے والی ہیں
کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے
رہا جو دھوپ میں سر پر مرے وہی انچل
ہوا چلی ہے تو کتنا بدلتا جاتا ہے
وہ بات کر جسے دنیا بھی معتبر سمجھے
تجھے خبر ہے زمانہ بدلتا جاتا ہے