سنگ جب آئینہ دکھاتا ہے
شیشہ کیا کیا نظر چراتا ہے
سلسلہ پیاس کا بتاتا ہے
پیاس دریا کہاں بجھاتا ہے
ریگزاروں میں جیسے تپتی دھوپ
یوں بھی اس کا خیال اتا ہے
سن رہا ہوں خرامِ عمر کی چاپ
عکس آواز بتا جاتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے کہ پاس آ کر
فاصلہ دور تک بچھاتا ہے