جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
بلا کافی نہ تھی اک زندگی کی
دوبارہ یاد فرمایا گیا ہوں
سپردِ خاک ہی کرنا تھا مجھ کو
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں
کوئی صنعت نہیں مجھ میں تو پھر کیوں
نمائش گاہ میں لایا گیا ہوں
مجھے تو اس خبر نے کھو دیا ہے
سنا ہے میں کہیں پایا گیا ہوں
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں