ہوا سنکے تو خاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
مِرے غم کی بہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
نہ چھیڑ اے ہم نشیں اب زیست کے مایوس نغموں کو
کہ اب بربط کے تاروں کوبڑی تکلیف ہوتی ہے
مجھے اے کثرتِ آلام ! بس اتنی شکایت ہے
کہ میرے غم گساروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
میں تھک جاتا ہوں لیکن آہِ مایوسی نہیں بھرتا
کہا اس سے رہگزاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
گلے آپس میں جب ملتے ہیں دو بچھڑے ہوئے ساتھی
عدم ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے