وہ سر خوشی دے کہ زندگی کو شباب سے بہرہ یاب کر دے (حفیظ جالندھری)

وہ سر خوشی دے کہ زندگی کو شباب سے بہرہ یاب کر دے

مِرے خیالوں میں رنگ بھر دے  مِرے لہو کو شراب کر دے

یہ خوب کیا ہے یہ زشت کیا ہے ، جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے

بڑا مزہ ہو تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کر دے

کہو تو رازِ حیات کہہ دوں ، حقیقتِ کائنات کہہ دوں

وہ بات کہہ دوں کہ پتھروں کے جگر کو بھی آب آب کر دے

خلافِ تقدیر کر رہا ہوں، پھر ایک تقصیر کر رہا ہوں

پھر ایک تدبیر کر رہا ہوں خدا اگر کامیاب کر دے

تِرے کرم کے معاملے کو تِرے کرم ہی پہ چھوڑتا ہوں

مِری وفائیں شمار کر لے ، مِری وفا کا حساب کر دے

حفیظ سب سے بڑی خوبی ہے عشق میں لطفِ کامیابی

کسی کی دنیا تباہ کر دے کسی کی عقبٰی خراب کر دے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *