وہاں تو ہار قیامت بھی مان جاتی ہے
جہاں تلک ترے قد کی اٹھان جاتی ہے
یہ عہدِ سنگ زنی ہے سو چپ ہیں آئنہ گر
کہ لب کشا ہوں تو سمجھو دکان جاتی ہے
یہ مہرباں مشیت بھی ایک ماں کی طرح
میں ضد کروں تو مری بات مان جاتی ہے
سو کیا کریں یہاں بسمل کہ بات قاتل کی
کوئی نہ مانے عدالت تو مان جاتی ہے
میں کس طرح سے گزراوں گا عمر بھر کا فراق
وہ دو گھڑی بھی جدا ہو تو جان جاتی ہے
یہ نامراد محبت بھی قاتلوں کی طرح
ضرور چھوڑ کے کوئی نشان جاتی ہے
فراز اجڑنے لگا ہے چمن محبت کا
جو رُت ہمیشہ رہی مہربان، جاتی ہے