اسی طلسمِ شب ماہ میں گزر جائے (اعتبار ساجد)

اسی طلسمِ شب ماہ میں گزر جائے

اب اتنی رات گئے کون اپنے گھر جائے

عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے

یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے

میں تیرے جسم میں کچھ اس طرح سما جاؤں

کہ تیرا لمس مری روح میں اتر جائے

مثالِ برگِ خزاں ہے ہوا کی زد پہ یہ دل

نجانے شاخ سے ٹوٹے تو پھر کدھر جائے

میں یوں اداس ہوں امشب کہ جیسے رنگِ گلاب

خزاں کی چاپ سے بے ساختہ اتر جائے

ہوائے شام ہے صحرا میں اور یہ غم ساجد

نجانے جسم کی دیوار کب بکھر جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *