یہ عجیب فصلِ فراق ہے (محسن نقوی)

یہ عجیب فصلِ فراق ہے

!یہ عجیب فصلِ فراق ہے

کہ نہ لب پہ حرفِ طلب کوئی

نہ اداسیوں کا سبب کوئی

نہ ہجومِ درد کے شوق میں!

کوئی زخم اب کے ہرا ہوا

نہ کماں بدست عدو ہوئے

نہ ملامت صف دوستاں

پہ یہ دل کسی سے خفا ہوا

کوئی تار اپنے لباس کا

نہ ہوا نے ہم سے طلب کیا

سرِ رہگزار وفا بڑھی

نہ دیا جلانے کی آرزو

پے چارہ غم دو جہاں

نہ کوئی مسیحا نہ چارہ گر

نہ کسی خیال کی جستجو

نہ خلش کسی کے وصال کی

نہ تھکن رہِ مہ وسا ل کی

نہ دماغ رنج رخ بتاں

نہ تلاش لشکرِ ناصحاں

وہی ایک حال ہے ضبط کا

وہی ایک چال ہے دہر کی

وہی ایک رنگ ہے شوق کا

وہی ایک رسم ہے شہر کی

نہ نظر میں خوف ہے رات کا

نہ فضا میں دن کا ہراس ہے

پے عرضِ حال سخن وراں

وہی ہم سخن ہے رفیق جاں

وہی ہم سخن جسے دل کہیں!

وہ تو یوں بھی کب کا اداس ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *