آپس میں بات چیت کی زحمت کیے بغیر (اعتبار ساجد)

آپس میں بات چیت کی زحمت کیے بغیر

بس چل رہے ہیں ساتھ شکایت کیے بغیر

آنکھوں سے کر رہے ہیں بیاں اپنی کیفیت

ہونٹوں سے حالِ دل کی وضاحت کیے بغیر

دونوں کو اپنی اپنی انائیں عزیز ہیں

لیکن کسی کو نذرِ ملامت کیے بغیر

ٹھہرا ہوا ہے وقت مراسم کے درمیاں

پیدا خلیج میں کوئی وسعت کیے بغیر

حیران ہیں کہ اتنے برس کیسے کٹ گئے

رسمی سا کوئی عہدِ رفاقت کیے بغیر

چارہ گروں سے دونوں کو پڑتا ہے واسطہ

لیکن کسے کے حق میں خیانت کیے بغیر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *