جدا بھی ہونے کا اندوہ سہہ نہیں سکتے (اعتبار ساجد)

جدا بھی ہونے کا اندوہ سہہ نہیں سکتے

ہم ایک شہر میں اب خوش بھی رہ نہیں سکتے

یہ روز وشب ہیں ہمارے کہ ایک دوسرے سے

چھپائے پھرتے ہیں احوال، کہہ نہیں سکتے

شکستِ ذات کا اظہار چاہتے بھی نہیں

عجیب حال ہے، ہم چپ بھی رہ نہیں سکتے

حقیقتوں کی چٹانیں بھی اپنی راہ میں ہیں

خیال وخواب کے دریا میں بہہ نہیں سکتے

وہ بے قصور ہے، ایسی بھی کوئی بات نہیں

قصور وار ہیں ہم، یہ بھی کہہ نہیں سکتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *