ہجر کی شب ہے اور اجالا ہے
کیا تصور بھی لٹنے والا ہے
غم تو ہے عین زندگی لیکن
غم گساروں نے مار ڈالا ہے
عشق مجبور و نا مراد سہی
پھر بھی ظالم کا بول بالا ہے
دیکھ کر برق کی پریشانی
آشیاں خود ہی پھونک ڈالا ہے
کتنے اشکوں کو کتنی آہوں کو
اک تبسم میں اس نے ڈھالا ہے
تیری باتوں کو میں نے اے واعظ
احتراماً ہنسی میں ٹالا ہے
موت آئے تو دن پھریں شاید
زندگی نے تو مار ڈالا ہے
شعر نغمہ شگفتگی مستی
غم کا جو روپ ہے نرالا ہے
لغزشیں مسکرائی ہیں کیا کیا
ہوش نے جب مجھے سنبھالا ہے
دم اندھیرے میں گھٹ رہا ہے خمارؔ
اور چاروں طرف اجالا ہے