حسنِ مطلق کا ازل کے دن سے میں دیوانہ تھا
لامکاں کہتے ہیں جس کو وہ مِرا کاشانہ تھا
دل کا حاکم جاں کا مالک غمِ جانانہ تھا
میہماں جس کو میں سمجھا تھا وہ صاحب خانہ تھا
دیر کی تحقیر کر اتنی نہ اے شیخِ حرم
آج کعبہ بن گیا کل تک یہی بت خانہ تھا
دی گئی منصور کو سولی ادب کے ترک پر
تھا اناالحق حق مگر اک حرفِ گستاخانہ تھا
پوچھتا پھرتا ہے غم اس کا مِرے سینے میں اب
کیا ہُوا وہ جو یہاں دلِ ناکام کا ویرانہ تھا