Category «امیر مینائی»

ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری (امیر مینائی)

ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری میں نے آغوش تصور میں بھی کھینچا تو کہا پس گئی پس گئی بے درد نزاکت میری آئینہ صبح شب وصل جو دیکھا …

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں (امیر مینائی)

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں ڈال کے خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں ضبط کم بخت نے یاں آ کے گلا گھونٹا ہے کہ اسے حال سناؤں تو …

امیر لاکھ ادھر سے ادھر زمانہ ہوا

امیر لاکھ ادھر سے ادھر زمانہ ہوا وہ بت وفا پہ نہ آیا میں بے وفا نہ ہوا سر نیاز کو تیرا ہی آستانہ ہوا شراب خانہ ہوا یا قمار خانہ ہوا ہوا فروغ جو مجھ کو غمِ زمانہ ہوا پڑا جو داغ جگر میں چراغ خانہ ہوا امید جا کے نہیں اس گلی سے …

یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں (امیر مینائی)

یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں تو سراپا ناز ہے میں ناز برداروں میں ہوں وصل کیسا تیرے نادیدہ خریداروں میں ہوں واہ رے قسمت کہ اس پر بھی گناہ گاروں میں ہوں ناتوانی سے ہے طاقت ناز اٹھانے کی کہاں کہہ سکوں گا کیونکر کہ تیرے ناز برداروں میں ہوں ہائے …

دامنوں کا نہ پتہ ہے نہ گریبانوں کا (امیر مینائی)

دامنوں کا نہ پتہ ہے نہ گریبانوں کا حشر جسے کہتے ہیں شہر ہے عریانوں کا گھر ہے اللہ کا گھر بے سرو سامانوں کا پاسبانوں کا یہاں کام نہ دربانوں کا گور کِسریٰ و فریدوں پہ جو پہنچوں تو پوچھوں تم یہاں سوتے ہو کیا حال ہے ایوانوں کا کیا لکھیں یار کو نامہ …

جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے (امیر مینائی)

جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے میں روتا ہوں ، اس کو ہنسی سوجھتی ہے تمہیں حور اے شیخ جی سوجھتی ہے مجھے رشکِ حور اک پری سوجھتی ہے یہاں تو میری جان پر بن رہی ہے تمہیں جانِ من دل لگی سوجھتی ہے جو کہتا ہوں ان سے کہ انکھیں ملاؤ وہ کہتے …

جب خوبرو چھپا تے ہیں عارض نقاب میں (امیر مینائی)

جب خوبرو چھپا تے ہیں عارض نقاب میں کہتا ہے حسن میں نہ رہوں گا حجاب میں بے قصد لکھ دیا ہے گلہ اضطراب میں دیکھوں کہ کیا وہ لکھتے ہیں خط کے جواب میں دو کی جگہ دیئے مجھے بوسے بہک کے چار تھے نیند میں ، پڑا انہیں دھوکا حساب میں سمجھا ہے …

پرسش کو مری کون مرے گھر نہیں آتا (امیر مینائی)

پرسش کو مری کون مرے گھر نہیں آتا تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا تم لاکھ قسم کھاتے ہو ملنے کی عدو سے ایماں سے کہہ دوں مجھے باور نہیں آتا ڈرتا ہے کہیں آپ نہ پڑ جائے بلا میں کوچے میں ترے فتنہ محشر نہیں اتا جو مجھ پہ گزرتی ہے کبھی …

ایک دل ہم دم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا (امیر مینائی)

ایک دل ہم دم مرے  پہلو سے کیا جاتا رہا سب تڑپنے بلبلانے کا مزہ جاتا رہا سب کرشمے تھے جوانی کے، جوانی کیا گئی وہ امنگیں مٹ گئیں وہ ولولہ جاتا رہا آنے والا جانے والا، بے کسی میں کون تھا ہاں مگر اک دم غریب ، آتا رہا جاتا رہا مرگیا میں جب …

ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا (امیر مینائی)

ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا کچھ اور بلا ہوتی ہے وہ دل نہیں ہوتا کچھ وصل کے وعدے سے بھی حاصل نہیں ہوتا خوش اب تو خوشی سے بھی میرا دل نہیں ہوتا گردن تنِ بسمل سے جدا ہو گئی کب سے گردن سے جدا خنجر قاتل نہیں ہوتا دنیا میں پری …