طور پر اے تپشِ دل ہیں وہ آنے والے
آج ہم تجھ کو ہیں بجلی سے لڑانے والے
ہم جو پہنچے تو قیامت میں ہوا غُل آئے
دھجیاں دامنِ محشر کی اڑانے والے
جامِ مے کاتبِ اعمال کو بھی دے ساقی
دو بزرگ آئے ہیں ساتھ اگلے زمانے والے
اشکِ خجلت عرقِ شرم تمہیں دونوں ہو
دمِ آخر مِری بگڑی کے بنانے والے
سو عزیز آئے مگر دو بھی نہ نکلے افسوس
چار آنسو مِری تربت پہ بہانے والے
خاک رنج و غم و اندوہ سے آباد ہو دل
ہیں یہ سب خانہ خرابی کے گھرانے والے