ہر دَم جو خونِ تازہ مِری چشمِ تر میں ہے (امیر مینائی)

ہر دَم جو خونِ تازہ مِری چشمِ تر میں ہے

ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے

واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں

منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے

ساقی مئے طہور میں کیفیتیں سہی

پر وہ مزہ کہاں ہے جو تیری نظر میں ہے

دنیائے ثبات میں کیا ہو ہمیں ثبات

جس گھر میں ہم مقیم وہ گھر ہی سفر میں ہے

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *