دامنوں کا نہ پتہ ہے نہ گریبانوں کا
حشر جسے کہتے ہیں شہر ہے عریانوں کا
گھر ہے اللہ کا گھر بے سرو سامانوں کا
پاسبانوں کا یہاں کام نہ دربانوں کا
گور کِسریٰ و فریدوں پہ جو پہنچوں تو پوچھوں
تم یہاں سوتے ہو کیا حال ہے ایوانوں کا
کیا لکھیں یار کو نامہ کہ نقاہت سے یہاں
فاصلہ خانہ وکاغذ میں ہے میدانوں کا
موجیں دریا میں جو اٹھتی ہوئی دیکھیں سمجھا
یہ بھی مجمع ہے تیرے چاک گریبانوں کا
تیر پہ تیر لگانا ہے کماندار فلک
خانہ دل میں ہجوم آج ہے مہمانوں کا
قدر داں چاہئے دیوان ہمارا ہے امیر
منتخب مصحفی و میر کے دیوانوں کا