دشنام ، ہو کے وہ ترش ابرو ہزار دے
یاں وہ نشہ نہیں ہے جسے ترشی اُتار دے
بے فیض چشمہ آبِ مصفا کا ہے تو کیا
مانگوں تو ایک قطرہ نہ آئینہ دار دے
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اِسے رو کر گزار دے
نے رحم ہے نہ پاسِ محبت نہ منصفی
پھر جان کِس امید پہ یہ جاں نثار دے
اِس جبر پر تو ذوق بشر کا یہ حال ہے
کیا جانے کیا کرے جو خدا اختیار دے