اس کی حسرت ہے، جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں (امیر مینائی)

اس کی حسرت ہے، جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں

وصل میں چھیڑ نہ اتنا اسے اے شوقِ وصال

کہ وہ روٹھے تو کسی طرح منا بھی نہ سکوں

ڈال کر خاک مرے خوں پہ ، قاتل نے کہا

کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں

کوئی پوچھے تو محبت سے یہ کیا ہے انصاف

وہ مجھے دل سے بھلا دے میں بھلا بھی نہ سکوں

ہائے کیا سحر ہے یہ حسن کی مانگیں جو حسیں

دل بچا بھی نہ سکوں جان چھڑا بھی نہ سکوں

ایک نالے میں جہاں کو تہ و بالا کر دوں

کچھ تیرا دل یہ نہیں ہے کہ ہلا بھی نہ سکوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *