ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا (امیر مینائی)

ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا

کچھ اور بلا ہوتی ہے وہ دل نہیں ہوتا

کچھ وصل کے وعدے سے بھی حاصل نہیں ہوتا

خوش اب تو خوشی سے بھی میرا دل نہیں ہوتا

گردن تنِ بسمل سے جدا ہو گئی کب سے

گردن سے جدا خنجر قاتل نہیں ہوتا

دنیا میں پری زاد دیئے خلد میں حوریں

بندوں سے وہ اپنے کبھی غافل نہیں ہوتا

دل مجھ سے لیا ہے تو ذرا بولئے ہنسئے

چٹکی میں مسلنے کے لئے دل نہیں ہوتا

عاشق کے بہل جانے کو اتنا بھی ہے کافی

غم دل کو تو ہوتا ہےا گر دل نہیں ہوتا

فریاد کروں دل کے ستانے کی اسی سے

راضی مگر اس پر بھی میرا دل نہیں ہوتا

مرنے کی بتوں پر یہ ہوئی مشق کہ مرنا

سب کہتے ہیں مشکل ، مجھے مشکل نہیں ہوتا

جس بزم میں وہ رخ سے اٹھا دیتے ہیں پردہ

پروانہ وہاں شمع پہ مائل نہیں ہوتا

کہتے ہیں کہ دل دے کے تڑپتے ہیں جو عاشق

ہوتا ہے کہاں درد اگر دل نہیں ہوتا

یہ شعر وہ فن ہے کہ امیر اس کو جو برتو

حاصل یہی ہوتا ہے کہ حاصل نہیں ہوتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *