مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا (ابراہیم ذوق)

مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا

پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا

جینا ہمیں اصلاً نظر اپنا نہیں آتا

گر آج بھی وہ رشکِ مسیحا نہیں آتا

کیا جانے اسے وہم ہےکیا میری طرف سے

جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں اتا

بیجا ہے ولا اس کے نہ آنے کی شکایت

کیا کیجئے گا فرمائیے اچھا نہیں آتا

کس دن نہیں ہوتا قلق ہجر ہے مجھ کو

کس وقت مرا منہ کو کلیجہ نہیں آتا

ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں

شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا

آنا ہے تو آ جا کہ کوئی دم کی ہے فرصت

پھر دیکھئے آتا بھی ہے دم یا نہیں آتا

ہستی سے زیادہ کچھ آرام عدم میں

جو جاتا ہے یہاں سے وہ دوبارہ نہیں آتا

دنیا ہے وہ صیاد کہ سب دام میں اس کے

آ جاتے ہیں لیکن کوئی دانا نہیں آتا

جو کوچہِ قاتل میں گیا پھر وہ نہ آیا

کیا جانے مزہ کیا ہے کہ جیتا نہیں آتا

قسمت ہی سے لاچار ہوں اے ذوق وگرنہ

سب فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *