مرضِ عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے (ابراہیم ذوق)

مرضِ عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

نہ دَوا یاد رہے اور نہ دُعا  یاد رہے

رات کا وقت ہے بندے سے اگر بندہ نواز

بند میں دے لو گِرہ تا کہ ذرا یاد رہے

تیرا عاشق نہ ہو آسودہ بہ زیرِ طوبیٰ

خلد میں بھی تِرے کوچے کی ہوا یاد رہے

کشتئہ زلف کے مرقد پہ تُو اے لیلیٰ وش

بیدِ مجنوں ہی لگانا کہ پتا یاد رہے

عالمِ حسن خدائی ہے بُتوں کی اے ذوق

چل کے بت خانے میں بیٹھو کہ خدا یاد رہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *