میں ہجر میں مرنے کے قریں ہو ہی چکا تھا (ابراہیم ذوق)

میں ہجر میں مرنے کے قریں ہو ہی چکا تھا

تم وقت پہ آ پہنچے نہیں ہو ہی چکا تھا

اَب جان پہ آفت ہے جو آئے ہو دوبارہ

اِک بار تو غارت دل و دیں ہو ہی چکا تھا

سینہ جو کیا چاک تو واں کچھ بھی نہ پایا

کیا جل کے جگر خاک کہیں ہو ہی چکا تھا

آنے سے مرے ٹھیر گئے آپ وگرنہ

جانے کا اِرادہ  تو کہیں ہو ہی چکا تھا

جو کچھ کہ ہوا ہم سے وہ کس طرح نہ ہوتا

حکمِ اذلی ذوق یونہی ہو ہی چکا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *