ہے کان اس کے زلفِ معنبر لگی ہوئی (ابراہیم ذوق)

ہے کان اس کے زلفِ معنبر لگی ہوئی

چھوڑے گی یہ نہ، بال برابر، لگی ہوئی

بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خمِ مے کی طرح ہم

پر کیا کریں کہ مہر ہے منھ پر لگی ہوئی

میت کو غسل دیجو نہ اس خاکسار کی

ہے تن پہ خاکِ کوچئہ دلبر لگی ہوئی

بیٹھے ہیں دل کے بیچنے والے ہزار ہا

گِزری ہے اُس کی راہ گزر پر لگی ہوئی

یہ چاہتا ہے شوق  کہ قاصد بجائے مہر

آنکھ اپنی ہو لفافئہ خط پر لگی ہوئی

اے ذوق اِتنا دخترِ رز کو نہ مُنہ لگا

چھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *