بھر جائیں گے جب، زخم تو آؤں گا دوبارہ
میں ہار گیا جنگ، مگر دل نہیں ہارا
روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں
اُس کُنجِ ملاقات میں جو وقت گزارا
اپنے لئے تجویز کی شمشیرِ برہنہ
اور اُس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا
کچھ سیکھ لو لفظوں کے برتنے کا قرینہ
اِس شُغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا
لب کھولے پری زاد نے آہستہ سے، ثروت
جوں، گفتگو کرتا ہے ستارے سے ستارہ