Category «ثروت حسین»

یہ ہونٹ ترے ریشم ایسے (ثروت حسین)

یہ ہونٹ ترے ریشم ایسے کھِلتے ہیں شگوفے کم ایسے یہ باغ چراغ سی تنہائی یہ ساتھ گل و شبنم ایسے مِری دھوپ میں آنے سے پہلے کبھی دیکھے تھے موسم ایسے کس فصل میں کب یکجا ہوں گے سامان ہوئے ہیں بہم ایسے سینے میں آگ جہنم سی اور جھونکے باغِ ارم جیسے

میں تمہیں یاد کر رہا تھا(ثروت حسین)

میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب درخت خاموش تھے اور بادل شور کر رہے تھے میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب عورتیں آگ روشن کر رہی تھیں میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب میدان سے ایک بچے کا جنازہ گزر رہا تھا میں تمہیں یاد کر رہا تھا ھب قیدیوں کی گاڑی …

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے (ثروت حسین)

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے تیری آواز جدھر لے جائے اب یہی سوچ رہی ہیں آنکھیں کوئی تا حد نظر لے جائے منزلیں بجھ گئیں چہروں کی طرح اب جدھر راہ گزر لے جائے تیری آشفتہ مزاجی اے دل کیا خبر کون نگر لے جائے سایئہ ابر سے پوچھو ثروت اپنے ہمراہ اگر …

جب شام ہوئی میں نےقدم گھر سے نکالا (ثروت حسین)

جب شام ہوئی میں نےقدم گھر سے نکالا ڈوبا ہو اخورشید سمندر سے نکالا ہر چند کہ اس رہ میں تہی دست رہے ہم سودائے محبت نہ مگر سر سے نکالا جب چاند نمودار ہوا دور افق پر ہم نے بھی پری زاد کو پتھر سے نکالا دہکا تھا چمن اور دم صبح کسی نے …

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید (ثروت حسین)

کوئی اٹکا ہوا ہے پل  شاید وقت میں پڑ گیا ہے بل شاید لب پہ آئی مری غزل شاید وہ اکیلے ہیں آج کل شاید دل اگر ہے تو درد بھی ہو گا اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید جانتے ہیں ثواب رحم و کرم ان سے ہوتا نہیں عمل شاید آ رہی ہے …

درخت۔۔۔۔۔ میرے دوست (ثروت حسین)

درخت۔۔۔۔۔ میرے دوست درخت! میرے دوست تم مل جاتے ہو مجھے کسی نہ کسی موڑ پر اور آسان کر دیتے ہو میرا سفر تمہارے پیروں کی انگلیاں جمی رہیں پاتال کے بھیدوں پر قائم رہے میرے دوست تمہارت تنے کی متانت اور قوت۔۔۔۔ دھوپ اور بارش تمہیں اپنے تحفوں سے نوازتی رہے تم بہت پروقار …

پورے چاند کی سج دھج ہے شہزادوں والی (ثروت حسین)

پورے چاند کی سج دھج ہے شہزادوں والی کیسی عجیب گھڑی ہے نیک ارادوں والی نئی نئی سی آگ ہے یا پھر کون ہے وہ پیلے پھولوں گہرے سرخ لبادوں والی بھری رہیں یہ گلیاں پھول پرندوں سے سجی رہے تاروں سے طاق مرادوں والی آنکھیں ہیں اور دھول بھرا سناٹا ہے گزر گئی ہے …

بھر جائیں گے جب، زخم تو آؤں گا دوبارہ (ثروت حسین)

بھر جائیں گے جب، زخم تو آؤں گا دوبارہ میں ہار گیا جنگ، مگر دل نہیں ہارا  روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں اُس کُنجِ ملاقات میں جو وقت گزارا اپنے لئے تجویز کی شمشیرِ برہنہ اور اُس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا کچھ سیکھ لو لفظوں کے برتنے کا قرینہ …