تِری گلی میں تماشا کیے زمانہ ہوا
پھر اس کے بعد نہ آنا ہوا نہ جانا ہوا
کچھ اتنا ٹوٹ کے چاہا تھا میرے دل نے اسے
وہ شخص میری مروت میں بے وفا نہ ہوا
ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی
ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا
مرے خلوص کی صیقل گری بھی ہار گئی
وہ جانے کون سا پتھر تھا آئینہ نہ ہوا
میں زہر پیتا رہا زندگی کے ہاتھوں سے
یہ اور بات ہے میرا بدن ہرا نہ ہوا
شعور چاہیے ترتیبِ خار و کس کے لیے
قفس کو توڑ کے رکھا تو آشیانہ ہوا
ہمارے گاؤں کی مٹی ہی ریت جیسی تھی
یہ ایک رات کو سیلاب تو بہانہ ہوا
کسی کے ساتھ گئیں دل کی دھڑکنیں قیصر
پھر اس کے بعد محبت کا حادثہ نہ ہوا