میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں
سب نے دی بانگِ محبت کوئی خاموش نہیں
میں تری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا
ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں
تو نہیں نہ سہی، کیف نہیں غم ہی سہی
یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مرا آغوش نہیں
رہ گیا ہوں ترے جلووں میں جو میں گم ہو کر
ہائے دنیا یہ سمجھتی ہے مجھے ہوش نہیں
درِ جاناں پہ مجھے کرنے دے سجدے زاہد
ہاں مجھے ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں
آگئے ہیں ترے جلوے جو مقابل میرے
میں تو میں ہوں، مری نظروں کو بھی کچھ ہوش نہیں
چاک دامن کو مرے دیکھ کے حیراں کیوں ہو
ہوش کی بات تو یہ ہے کہ مجھے ہوش نہیں
ہائے بہزاد یہ عالم نہ سمجھ میں آیا
اب مجھے ہوش جو آیا تو انہیں ہوش نہیں