Category «بہزاد لکھنوی»

میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں (بہزاد لکھنوی)

میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں سب نے دی بانگِ محبت کوئی خاموش نہیں میں تری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں تو نہیں نہ سہی، کیف نہیں غم ہی سہی یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مرا آغوش نہیں …

چشمِ حسیں میں ہے نہ رخِ فتنہ گر میں ہے (بہزاد لکھنوی)

چشمِ حسیں میں ہے نہ رخِ فتنہ گر میں ہے دنیا کا ہر فریب فریبِ نظر میں ہے اب کیا خبر دل میں ہے کیا کیا جگر میں ہے اب تو تری نظر کا تماشا نظر میں ہے ایمان رکھ کے کیا کروں فرسودہ چیز ہے مستی مجھے قبول کہ تیری نظر میں ہے حاضر …