یہ خود کو دیکھتے رہنے کی ہے جو خو مجھ میں
چھپا ہوا ہے کہیں وہ شگفتہ رو مجھ میں
تغیراتِ جہاں دل پہ کیا اثر کرتے
ہے اب بھی تیری وہی شکل ہو بہو مجھ میں
رفو گروں نے عجب طبع آزمائی کی
رہی سرے سے نہ گنجائشِ رفو مجھ میں
وہ جس کے سامنے میری زباں نہیں کھلتی
اسی کے ساتھ تو ہوتی ہے گفتگو مجھ میں
خدا کرے کہ اسے دل کا راستہ مل جائے
بھٹک رہی ہے جو اک چاپ کو بکو مجھ میں
میں زندگی ہوں مجھے اس قدر نہ چاہ شعور
مسافرانہ اقامت گزیں ہے تو مجھ میں