چشمِ حسیں میں ہے نہ رخِ فتنہ گر میں ہے (بہزاد لکھنوی)

چشمِ حسیں میں ہے نہ رخِ فتنہ گر میں ہے

دنیا کا ہر فریب فریبِ نظر میں ہے

اب کیا خبر دل میں ہے کیا کیا جگر میں ہے

اب تو تری نظر کا تماشا نظر میں ہے

ایمان رکھ کے کیا کروں فرسودہ چیز ہے

مستی مجھے قبول کہ تیری نظر میں ہے

حاضر ہے اس کے واسطے جس کو ہو آرزو

ہاں اک لہو کی بوند مری چشمِ تر میں ہے

قسمت سے مل گئی ہے یہ بیدارئی حیات

اس عشق کے نثار کہ دنیا نظر میں ہے

مجھ کو نہ دن کو چین نہ شب کو سکوں نصیب

اک ربط دائمی مری شام و سحر میں ہے

حسرت سے دیکھئے نہ مرے سجدہ ہائے شوق

یہ آستاں کچھ اور ہی مری نظر میں ہے

باقی ہیں بعدِ توبہ بھی رندی کے ولولے

دل میں خیالِ بادہ ہے ساغر نظر میں ہے

اچھی ملی ہے مجھ کو یہ دیوانگئی شوق

دنیا کا ہر خیال دلِ بے خبر میں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *