دشت لے جائے کہ گھر لے جائے
تیری آواز جدھر لے جائے
اب یہی سوچ رہی ہیں آنکھیں
کوئی تا حد نظر لے جائے
منزلیں بجھ گئیں چہروں کی طرح
اب جدھر راہ گزر لے جائے
تیری آشفتہ مزاجی اے دل
کیا خبر کون نگر لے جائے
سایئہ ابر سے پوچھو ثروت
اپنے ہمراہ اگر لے جائے