میں ساز ڈھونڈتی رہی (ادا جعفری)

میں ساز ڈھونڈتی رہی

بہار کھلکھلا اٹھی

جنوں نواز بدلیوں کی چھاؤں میں

ہر ایک شاخِ لالا زار سجدہ ریز ہو گئی

ہر ایک سجدہ ریز شاخسار پر طیور چہچہا اٹھے

ہوائے مرغزار گنگنا اٹھی

جنوں نوازیاں بڑھیں

فسانہ سازیاں بڑھیں

مگر بہار کو ابھی تک آرزوئے نغمہ تھی

شہید کیف انتطار و جستجوئے نغمہ تھی

میں ساز ڈھونڈتی رہی

میں ساز ڈھونڈتی رہی

میں محو جستجو رہی

مجھے وہ سازِ دلنواز آج تک نہ مل سکا

وہ اودی اودی بدلیاں کہ فخرِ صد بہار تھیں

فلک کی چشمِ خوں فشاں سے اشک بن کے ڈھل گئیں

زمیں پہ شعلہ بازیاں ، فلک پہ گڑگڑاہٹیں

کہ سن رہے ہیں چشم و دل نظامِ نو کی آہٹیں

بہار بیت ہی چکی خزاں بھی بیت جائے گی

مگر میں ایک سوچ میں پڑی ہوں آج بھی

وہ میری آرزوؤں کی ناؤ کھے سکے گا یا نہیں

نظامِ نو بھی مجھ کو ساز دے سکے گا یا نہیں!؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *