وہ آنکھ اٹھا کے ذرا بھی جدھر کو دیکھتے ہیں (آرزو لکھنوی)

وہ آنکھ اٹھا کے ذرا بھی جدھر کو دیکھتے ہیں

تو کیا ہی یاس سے ہم اُس نظر کو دیکھتے ہیں

جو یہ حال ہے تو جائیں گے وہاں ہم آپ

اک آدھ روز تو دردِ جگر کو دیکھتے ہیں

یہ کہتے ہو اگر آنا ہوا تو آئیں گے ہم

بھلا ہم آج تمہاری اگر کو سیکھتے ہیں

قفس میں ایک تو صیاد کے میں قیدی ہوں

پہ تس پہ روز مِرے  بال وپر کو دیکھتے ہیں

شبِ وصال میں احسان کیا جتاتے ہو

یوں ہی نبھاؤگے تم عمر بھر کو دیکھتے ہیں

نہ کیوں ہو جان سے قربان اِس ادا پہ نظام

وہ باندھ باندھ کے پٹکا کمر کو دیکھتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *